Sunday, September 25, 2011

Pakistan With No Directions & Policies -2011


ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ ڈرون جیسی جدید ٹیکنولجی ہمیں دے دو آپریشن ہم کرینگے۔۔۔۔ عہدِجدید کی جنگ میں معصوم جانوں کا کم سے کم نقصان صرف جدید گائیڈید میزائیل کے استعمال سے ہی ممکن ہےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈرون کی عدم دستیابی کی صورت میں پہاڑوں کو محفوظ جنت بنائےانتہائی مطلوب شدت پسندوں کو ممکنہ عام جانی نقصان کے بغیر کس طرح ہدف بنایاجائے۔۔۔۔ حصول ہدف کے کامیاب نتائج سے ہی ڈرون حملے کی بندش کے مطالبے میں وزن ہوگا ورنہ یا تو یہ لالچ یا پھر ہدف کی معاونت کے زمرے میں آئیگا۔ بھلا کیوں کوئی ہم پر یقین کرے اور اعتماد کا فقدان کیوں نہ ہو کہ جب بن لادن یہاں سالاسال فارمنگ کرے بعیت الله محسود کراچی جیسے شہر میں علاج کرائے ۔۔۔ ائیر بیس اور ہیڈکواٹر پر حملوں میں اندورنی معاونت ہو ۔۔۔۔ضروری نہیں کہ اٹیمی طاقت کو روائیتی جنگ سے ختم کیا جائے ایسے ملک کو اندر سے کمزور کیا جاتا ہے اور تین سالوں میں پاکستان کو خوراک اور توانائی کے شعبے میں ان نااہل حکمرانوں نے کھوکلا کر دیا ہے ایک طرف ناکارہ منصوبہ بندی اور ڈیم نہ بنانے کی ضد سے زراعت کو نقصان دیا جاتا ہے دوسری طرف کراچی جیسے اہم تجارتی شہر پہلے سے کئی گناہ زیادہ واجبات ادا کرکے بھی بارہ بارہ گھنٹے بجلی سے محروم ہے تو پھر ستر فیصد ملکی آمدنی کیسے ممکن ہے اور ایسے میں اس شہر کے نمائندوں کے مینڈیٹ کو غدار ثابت کرتے اربابِ اختیار ریت میں سر دیکر اس بدعنوانی میں حصے دار کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔۔۔۔ مہنگائی کا یہ عالم کردیا کہ آزادی سے پہلے آزادنہ گائے کی قربانی ناممکن تھی اور آج غریب اسکو قربان تو کرسکتا ہے پر اسکا کھانا ناممکن ہے  گو کہ یہ سچ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو ایٹمی پاکستان سے تکلیف ہے پر شدت پسندوں نے اسے انکے پروپیگنڈہ کے مطابق اسلامی بم بناکر دنیا میں طاقت کے زور پر اپنے طرز کی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کی اور پاکستان فوج میں انفرادی بنیاد پر اندرونی معاونت کا مطلب ہرگز اس ادارے کی پالیسی نہیں ہوتی جرنل ہیڈکواٹر اور ایئر بیس حملے اسکی مثالیں ہے۔ انھی شدت پسند طاقتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان دیا کہ آج بیرونی طاقتوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔صوفی محمد اور فضل الله ایک دفعہ پھر سوات میں واپس آکر متحرک ہوگئے ہیں۔ آج بھی صرف اور صرف تعصب کا چشمہ لگاکر ان لوگوں کو نظرانداز کر کے اس جارہیت کا قصور اپنے ہی لوگوں کو دیا جاتا ہے یہی 35000 پاکستانیوں کے قاتل عدالتوں سے باعزت بری ہوجاتے ہیں اور پھرھم دنیا سے انصاف کی توقع کرتےہیں

No comments:

Post a Comment